کوئی قصور وار ہے تو قانونی کارروائی کریں مگر کسی ایجنسی کو استثنا نہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ
لاپتہ بلوچ طلبہ بازیاب نہ ہوئے تو وزیراعظم اور وزیر داخلہ کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا جائے گا
بلوچ طلبہ کی بازیابی کمیشن کی سفارشات پرعملدرآمد کے کیس کی سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے کی اور ریمارکس دیتے ہوئے کہا ‘کوئی قصور وار ہے تو قانونی کارروائی کریں مگر کسی ایجنسی کو استثنا نہیں کہ جس کو مرضی ہے برسوں کے لیے اٹھا کر لے جائیں اور پھر وہ تھانہ آبپارہ کے ایس ایچ او کے حوالے کر دیں۔
ان کامزید کہناتھا، اگراگلی سماعت تک لاپتہ بلوچ طلبہ بازیاب نہ ہوئے تو وزیراعظم، وزیر داخلہ اور سیکریٹری دفاع کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا جائے گا۔
سماعت کے دوران درخواست گزارایمان مزاری اور لاپتا طلبہ کے اہل خانہ بھی اسلام آباد ہائیکورٹ میں موجود تھے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان عدالت کے سامنے پیش ہوئے، نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی، نگران وزیر انسانی حقوق خلیل جارج بھی عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 22 بلوچ طلبہ کو بازیاب کروا لیا گیا اور وہ گھر پہنچ چکے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 28 بلوچ لاپتہ افراد ابھی بھی لاپتہ ہیں۔
ان کے مطابق 28 طلبہ کی شناختی کارڈز کی تفصیل نہ ہونے کے باعث وہ تاحال لاپتہ ہیں۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو مزید بتایا کہ وزیراعظم اس وقت بیرون ملک ہیں جس وجہ سے وہ عدالت کے سامنے پیش نہیں ہو سکے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ’میں یقین دہانی کراتا ہوں تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کرانے کی کوششیں کریں گے۔‘کمیشن کی ریورٹ وفاقی کابینہ کے سامنے پیش کی گئی تھی اور اس پر وفاقی کابینہ کی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، جس کو یہ معاملہ بھیجا گیا،لاپتہ افراد سے متعلق کمیشن کو آرڈر دیا تھا کہ ایکشن سے متعلق تجاویز دیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ یہ سادہ سی بات ہے کہ بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ ہے، سارے لاپتہ یونیورسٹی سٹوڈنٹس ہیں، کیا وہ پاکستانی شہری نہیں؟تمام الزام سکیورٹی ایجنسیوں پر ہیں۔
عدالت نے کہا کہ یہ رپورٹ بادی النظر میں ظاہر کرتی ہے کہ ملک میں کوئی لا اینڈ آرڈر نہیں ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ’جس کا جو جی میں آئے وہ کہے جا رہا ہے۔ جج کے مطابق ’یہ ہمارے شہری ہیں ان کی مائیں بہنیں بھائی رو رہی ہیں،’وہ بلوچستان سے چلتے ہیں یہاں کمیشن کے سامنے آکر پیش ہوتے ہیں۔’ انھوں نے کہا کہ کوئی قصور وار ہے تو قانونی کارروائی کریں مگر کسی ایجنسی کو استثنا نہیں کہ جس کو مرضی ہے برسوں کے لیے اٹھا کر لے جائیں اور پھر وہ تھانہ آبپارہ کے ایس ایچ او کے حوالے کر دیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ’کیا کسی مہذب معاشرے میں یہ کام ہوتے ہیں، جو بھی لاپتہ شخص بازیاب ہوتا ہے وہ آکر کہتا ہے میں کیس کیس کی پیروی نہیں کرنا چاہتا۔ انھوں نے کہا کہ ’عدالت کو بند کمروں میں کہانی نہ سنائیں گے نہ ہی بند کمروں میں میں کسی کی سنوں گا،‘جو کہنا ہے اوپن کورٹ میں کہیں۔
عدالت نے وزیرداخلہ سے کہا کہ آج 22 ویں سماعت ہے آپ نے ساری ایجنسیز کو بلا کر پوچھنا تھا۔
لاپتہ بلوچ طلبہ بازیاب نہ ہوئے تو وزیراعظم اور وزیر داخلہ کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا جائے گا
نگراں وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نےاسلام آباد ہائیکورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران کہا ’کمیشن نے بہت سی چیزوں کو نہیں دیکھا، بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ یہاں سے لوگ افغانستان چلے گئے ہیں۔‘
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ’جبری گمشدگی والے کیسز میں لوگ آپ کے اپنے اداروں کے پاس ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ایک طرف مخصوص ادارے پر الزام ہے، انویسٹیگیشن بھی انھوں نے کرنی ہے۔
عدالت نے کہا کہ ’سیکریٹری دفاع ذمہ دار ہیں کہ ان کے ادارے کسی ایسے کام میں ملوث نا ہوں۔‘
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ’آج تک کسی ریاستی ادارے کو ذمہ دار ٹھہرا کر کارروائی کیوں نہیں ہوئی؟
نگران وزیر داخلہ نے کہا کہ بہت سارے کیسز ایسے بھی ہیں جن میں سیکورٹی فورسز کے ساتھ لڑتے ہوئے مارے گئے۔‘
جسٹس محسن اختر کیانی نے وزیرداخلہ سے کہا کہ اگر یہ لاپتہ افراد بازیاب نہ ہوئے تو آپ اور وزیر اعظم کے خلاف ایف آئی آر کا آرڈر کروں گا۔
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم پرپاکستان میں مختلف تعلیمی اداروں سے بلوچ طلبہ کی جبری گمشدگیوں اور دیگر الزامات کی تحقیقا ت کے لیے گذشتہ برس ایک کمیشن تشکیل دیا گیا تھا، جس نے رواں سال فروری میں اپنی رپورٹ عدالت میں جمع کرادی تھی۔
لاپتہ بلوچ طلبہ بازیاب نہ ہوئے
اسلام آباد ہائیکورٹ میں کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ سکیورٹی ایجنسیوں کی طرف سے تردید کے باوجود اس بات کے زبانی اور تحریری شواہد ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور خفیہ ایجنسیاں بلوچ طلبہ کو لاپتا کرنے میں ملوث ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا نگراں وزیر داخلہ دو ہفتے میں ان بلوچ فیملیز کو ملیں اور جو بلوچستان میں ہیں وہاں جا کر ملیں۔ عدالت کی وزیر داخلہ کو ہدایت آپ سیکرٹری دفاع کو ہدایات جاری کریں اپنے ماتحت اداروں کو بلا کر ان سے پوچھیں، بعد میں عدالت نے 10 جنوری 2024 تک کیس کی مزید سماعت ملتوی کردی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں سماعت کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے نگران وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کہا کہ وہ جلد لاپتا طلبہ کے اہل خانہ کو بلاکر ان سے ملاقات کریں گے۔